جو دیکھتا ہوں وہی کہنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر كا سب سے بڑا فسادی ہوں
ھمارے تین مرتبہ کے منتخب ایم این اے جو اپنی درویشی اور پارٹی بدلنے کی بنا پر مشہور ہے اپنی ذات میں ایک انجمن ہے، موصوف کی خوبی صرف یہی ہے کہ حلقے میں فوتگی پر دعا جنازے میں شرکت فرض عین سمجھتے ہیں، وقت کی ستم ظریفی کہیں اسے، کہ ابھی تک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے ایک وضو سے سب سے زیادہ جنازے پڑھنے کا ریکارڈ نوٹ نہیں کیا، ورنہ موصوف اس عالمی اعزاز کے کم از کم فی زمانہ حقدار ہیں۔ ایم این اے صاحب اسمبلی میں جانے کے لئے جنازے نہیں پڑھتے، بلکہ جنازوں میں شرکت کے لئے اسمبلی جاتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ خاموشی ایک عبادت ہے، ایم این اے صاحب اس عبادت کے اتنے سخت عابد ہیں کہ اپنے تین ٹرمز میں موصوف نے صرف ایک مشہور زمانہ جملہ فرمایا تھا “بونیر میں سب ٹھیک ہیں” ۔ ان کی کم سخنی کی اس عادت کے بنا پر کئی خواتین ممبران زیرِ لب انہیں اپنا مجازی خُدا بنانے کی تمنا کر چکی ہیں، یعنی موصوف اچھے شوہر ہونے کے واحد کمیاب شرط “خاموشی” پر پورا اترتے ہیں ۔
ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ آنجناب پر آج تک کسی ترقیاتی كام میں کرپشن کا الزام نہیں لگا، کیونکہ جب کوئی کام کیا ہی نہیں ہو تو الزام کاہے کا۔
موصوف “حرکت کی برکت” کے سختی سے قائل ہیں عمومًا سیاستدان ہر نئے الیکشن میں نئے وعدوں کے ساتھ آتے ہیں، موصوف ہر نئے الیکشن میں نئی پارٹی کے ساتھ آتے ہیں۔
ماضی قریب میں تبدیلی سرکار کے خلاف عدم اعتماد لایا گیا تو الزام لگا کہ جو بھی مخالف جائے گا، بکا ہوگا۔ موصوف اس سخت وقت میں اپنے کپتان کے ساتھ کھڑے رہے، واہ واہی ہوئی کہ بندہ درویش بکا نہیں، وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ خریدار کوئی تھا ہی نہیں، تو بکتا کیسے۔
بوٹم لائن یہ ہے کہ:
خاکہ کو طول دینے کے لئے اگرچہ کافی حد تک معلومات اکھٹا کرنے کی کوشش کی لیکن نہ کہیں خوبی ملی نہ خامی، بس سرسری عوامی پہچان سے کام چلایا گیا ۔
باقی مفصل خاکہ پھر کبھی جب مکمل معلومات میسر ہو ۔
