( قاتل خبر کۍ چې زندګی دا )
9/11 کے حملوں کے بعد دنیا میں اسلاموفوبیا کا عروج دیکھا گیا جو اب تک بدستور قائم ہے، خیر اسی دوران امریکا میں مقیم قاضی فضل اللہ صاحب ایک دفعہ وہی کہیں جا رہے تھے، راستے میں ٹریفک سگنل پر ایک انگریز نے اسکا روایتی مسلمانی انداز (داڑھی پگڑی سادہ لباس) دیکھ کر قاضی صاحب سے پوچھا کہ ‘ کیا تمہیں اسامہ بن لادن پسند ہیں ؟ ‘ تو قاضی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اسی کا سوال اُس سے پوچھا کہ میں تو خیر بتا دونگا کہ پسند ہے یا نہیں لیکن تم بتاؤ تمہیں وہ پسند ہے، تو انگریز نے رجھانے کی خاطر کہا کہ ہاں مجھے تو وہ بہت پسند ہے، تو قاضی صاحب نے جواباً کہا کہ اچھا، مگر وہ مجھے نہیں پسند، حیرت کے مارے انگریز پوچھ بیٹھا، کیوں ؟ تو قاضی صاحب نے جواب دیا کیونکہ وہ تمہیں پسند ہے اسی لیے مجھے نا پسند ہے۔
ماخذ یہ ہے کہ بعض دفعہ بات کی اصل روح سے آپکا کوئی بیر نہیں ہوتا بلکہ اپروچ کے انداز سے اختلاف کی گنجائش ہے ، ۱۷۰۰ عیسوی یعنی صنعتی انقلاب کے بعد انداز بدل گئے تعریفیں تبدیل ہوگئی، نئے پیمانے مقرر ہوئے اور اس انداز سے مسلط کئے گئے کہ تال کے ساتھ تال ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ اپنی احسن تقویم کو اگر مشقت(لقد خلقنا الانسان فی کبد) میں پیدا کیا گیا ہے تو مطلب ہی یہی ہے کہ آپ پرنت نئے نظام مسلط ہونگے اور آپ نے ” واعتصمو بحبل الله جميعاً ولا تفرقو” کی عملی تفسیر بنے رہنا ہوگا۔
“اقراء” یعنی پڑھو سے اپجائی امت کے زیر انتظام ممالک کی شرح خواندگی پر اگر نظر دوڑائی جائے تو آج کے امتیوں کے قول و فعل کا تضاد صاف ہوجائے گا ، اس سے اوپر اگر پھر نظام تعلیم پر سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملےگا ۔
دنیا کی دوسری قومیں جہاں ” افلا ینظرون الی لابل کیف خلقت ° والی السماء کیف رفعت ° والی الجبال کیف نصبت° و الی الارض کیف سطحت۔۔۔۔۔° کی عملی تفسیر بنے خداوند تعالیٰ کی تخلیق کردہ کائنات کی وسعتوں کو ناپنے میں لگی ہوئی ہیں وہی اُمتِ مسلمہ اسی شش وپنج میں مبتلا ہے کہ ” طلب العلم فريضة على كل مسلم” کے “کل” میں مستورات شامل ہیں یا نہیں اگر ہیں تو کس حد تک؟
یہ بات تو اظہر من الشمس کے مضداق عیاں ہے کہ اگر رابعہ بصری (رح) کو حدود حرم میں زمانے کا کوئی ولی اللہ سبق پڑھائے تو روا نہیں ۔ لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حصول علم کے دروازے عورتوں پر بند ہیں البتہ حصول علم کے لئے طریقہ کار پر بحث ہو سکتی ہے، وہ ذات جس کی رحمت کی وسعتیں “وسعت کُل شئ” ہیں اُسکا سچا دین اتنا کوتاہ نظر کیسے ہو سکتا ہے کہ فطرت متجسس دی اور ‘افلا تعقلون’ کے طعنے دئیے اور پھر علم کے دروازے بھی بند کر دیۓ۔ اسلام اگر عورت کو محدود رکھتا تو دنیا آج نوصیبہ بنت کعب (اُم عمارہ) کی بہادری کے قصوں سے بے خبر رہتی، سرکار علیہ السلام خود اسکی بہادری پر انگشتِ بدنداں تھے فرماتے تھے کہ ‘ او اُم عمارہ کوئی تم سا حوصلہ کہاں سے لائے ؟ ‘ تاریخ ہر گز اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ عالم اسلام میں پہلی نرس “رفِیدا بنت سعد” تھی اور یہ خدمات خود اس نے حضورعلیہ السلام کے حکم پر دی ہے، عورت اگر محدود ہوتی تو حضور علیہ السلام ‘اُم مہجان جو مسجد کی صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی’ کا انفرادی طور پر نمازِ جنازہ ادا نہیں فرماتے۔ عورت اگر اسلام میں محدود ہوتی تو شاید دنیا آج عالم اسلام کی بڑی معلمہ ‘اُم سعد جمیلہ بنت اسد انصاریہ’، زوجه عبداللہ ابن مسعود(رض) کی دستکاری، عائشہ بنت ابوبکر صدیق(رض) کے فتووں، نفیسہ بنت حسن: اِمام شافعی(رح) کی استاد، فاطمہ الفہری جو پہلی اسلامی یونیورسٹی کی بانی ہے، کے ناموں سے واقف تک نہ ہوتی ۔
۔مسئلہ مستورات کے حصول تعلیم کا نہیں ہے مسئلہ اندازِ حصول کا ہے، اگر تعلیم پر اعتراض ہوتا تو یہ غیرتی پردہ دار اپنی زنانیوں کی گائنی کے مسئلوں کے لئے کہاں رخ کرتے ؟ دوسری زنانہ رنجوریوں میں کیا اسے تڑپنے کے لئے چھوڑتے ؟ ہر گز نہیں ۔
آج کے مخلوط نظام تعلیم کو چھوڑ کر اگر نئے انداز تعلیم پر غور و فکر کیا جا رہا ہے تو اتنا واویلا کاہے کا۔ اسی جدید نظام تعلیم نے دنیا کو اگر معلوماتی انسانیت سے عاری روبوٹس دئیے ہیں، جو آج اپنے عروج پر جنسی استحصال Me Too# مومنٹ پر پہُںچ چکی ہے تو عدل کا تقاضہ ہے کہ اب شرعی نظام تعلیم کو بھی موقع دیا جائے ، یہ نظام آپکو #می_ٹو تو نہیں دے سکتا البتہ ایک مفید قابل عزت عورت دیگی جو ایک پیشہ ور ماہر کے علاوہ ایک سگھڑ بیوی ، قابل قدر بہن، باعث فخر بیٹی اور سلجھی ماں دے سکتی ہے جو اولاد کو اضافی بوجھ سمجھنے کے بجائے نعمت خداوندی سمجھے گی۔
**ہم ایسی سب کتابیں, قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے, بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں